Question:
My cousin is a nurse. For him to progress onto becoming a technician, he needs to dissect hearts. Is he Islamically allowed to dissect pigs hearts? He won’t be ingesting them and will be in full PPE.
Answer:
In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful.
As-salāmu ‘alaykum wa-raḥmatullāhi wa-barakātuh.
In principle, a pig is najis al-‘ayn (intrinsically impure in all its parts)[1], and its body, flesh, and fluids are impure and unsuitable for general handling. However, when there is a necessity (ḍarūrah )[2], such as a requirement in medical education, the use of impure substances will be permitted under strict conditions.[3]
Therefore, if:
- The dissection is compulsory and there are no permissible alternatives
- The purpose is purely educational
- And proper Islamic etiquettes and hygiene are upheld,
then it will be permissible to participate in such a class out of necessity.
Precautions Required:
- Wear disposable gloves and other protective gear to prevent direct contact with the pig or its fluids.
- Ensure no impurity touches the skin or clothing; if it does, the affected area must be washed thoroughly.
- All gloves and contaminated materials must be disposed of properly to avoid spreading impurity.
- After the class, one should ensure that everything is thoroughly cleaned.
And Allah Ta’āla Knows Best
Answered by:
Mus’ab Patel, Humayun Ludy & Nizam Uddin
Checked & Approved By:
(Mufti) Muadh Chati
فَأَمَّا الْخِنْزِيرُ فَهُوَ نَجِسُ الْعَيْنِ عَظْمُهُ وَعَصَبُهُ فِي النَّجَاسَةِ كَلَحْمِهِ، فَأَمَّا شَعْرُهُ فَقَدْ قَالَ أَبُو حَنِيفَةَ – رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى – يَجُوزُ اسْتِعْمَالُهُ لِلْخَرَّازِ لأَجْلِ الضَّرُورَةِ، وَفِي طَهَارَتِهِ عَنْهُ رِوَايَتَانِ فِي رِوَايَةٍ طَاهِرُ ، وَهَكَذَا رُوِيَ عَنْ أَبِي يُوسُفَ وَمُحَمَّدٍ رَحِمَهُمَا اللَّهُ تَعَالَى – أَنَّهُ طَاهِرُ لَمَّا كَانَ الانْتِفَاعُ بِهِ جَائِرًا وَلِهَذَا جَوْزَ أَبُو حَنِيفَةً بَيْعَهُ؛ لِأَنَّ الْانْتِفَاعَ لَا يَتَأَدَّى بِهِ إِلَّا بَعْدَ الْمِلْكِ وَهُوَ نَجِسٌ فِي إِحْدَى الرَّوَايَتَيْنِ؛ لأنَّ الثَّابِتَ بِالضَّرُورَةِ لَا يَعْدُوا مَوْضِعَهَا ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ مُحَمَّدٍ – رَحِمَهُ اللهُ تَعَالَى – أَنَّهُ الْحَقَ الْفِيلَ بِالْخِنْزِيرِ، وَالْأَصَحُ أَنَّهُ كَسَائِرِ الْحَيَوَانَاتِ عَظْمُهُ طَاهِرُ ، وَقَدْ جَاءَ فِي حَدِيثِ ثَوْبَانَ أَنَّ النَّبِيِّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اشْتَرَى لِفَاطِمَةَ سِوَارَيْنِ مِنْ عَاجِ وَظَهَرَ اسْتِعْمَالُ النَّاسِ الْعَاجَ مِنْ غَيْرِ نَكير فدلَ عَلَى طَهَارَته
المبسوط ج1ص203 دار المعرفة))
[قال] فأما عظم الخنزير ، فإنه ينجس ، سواء كان عليه لحم أو دسم أو لم يكن ؛ لأن أجزاء الخنزير محكوم بنجاستها ، ممنوع من الانتفاع بها
(شرح مختصر الكرخي ج1ص159 ا سفار)
فصل : سؤر الخنزير
وأما النوع الثالث: وهو الخنزير ، فسؤره نجس ، وقال مالك : طاهر لنا: قوله تعالى: ﴿ أَوْ لَحْمَ خِنْزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ ﴾ [الأنعام: ١٤٥] ، وهذه الكناية ترجع إلى نفس الخنزير ؛ ولأنه مطلق التحريم كالدم، ولأن الانتفاع به لا يجوز بحال ، كسائر النجاسات
(شرح مختصر الكرخي ج1ص169 ا سفار)
الضرورات تبيح المحظورات
(الأشباه والنظائر ص85 دار الكتب العلمية)
اور خنزیر چونکہ مثل پیشاب پائخانہ اور شراب کے نجس ہے۔ اس لئے مسلمان کو اس پر مشق سے اجتناب لازم ہے۔ اگر بضرورت یا مجبوری آزمانا پڑے تو جسم و کپڑے کو اس كے ذرات سے بچانا اور اگر کہیں لگ جائے تو بعد میں فورا پاک کرنا لازم ہوگا۔
نظام الفتاوى ج1 ص398، اسلامک فقہ اکیڈمی))
خىز ير نجس العین ہے اس کی ہر شی نا پاک، اس کا استعمال نا جائز ہے۔ اگر اس جھوٹے کا کوئی اور علاج نہیں، صرف خنزیر کی چربی ہی علاج ہے تو ایسی صورت میں اس کا لگوانا درست ہے۔ جب اس کو مل کر نہلایا گیا اور چربی و اور چربی وہاں باقی نہیں رہی تو وہ جگہ بھی پاک ہوگی، اب اس جگہ ہاتھ لگانا درست ہے۔ چربی کی موجودگی میں اس جگہ ہاتھ لگانے سے ہاتھ کی ناپاکی کا حکم دیا جائے گا۔ بعد ذبح اس کا گوشت بلا تامل حلال ہے، اس میں کوئی تر در نہیں
فتاوی محمودیه ج18 ص261 جامعہ فاروقیہ کراچی))
مختلف دواؤں کے اثرات اور فائدوں کا تجربہ کرنے کے لئے بسا اوقات جانوروں کو استعمال کرنا پڑتا ہے۔ پہلے ان کے جسم میں ایسے جراثیم داخل کئے جاتے ہیں جو اس بیماری کو پیدا کر دیں۔ پھر ان ممکنہ دواؤں کو ان پر آزمایا جاتا ہے جو ان امراض کے لئے مفید ثابت ہو سکتی ہوں۔ یہ صورتیں جائز ہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ اسلام نے جانوروں کو خواہ مخواہ اذیت دینے اور اس کے مشاہدہ کو اپنے لئے سامان تفریح بنانے کی اجازت نہیں دی ہے۔ لیکن دوسری طرف اس نے یہ تصور بھی پیش کیا ہے کہ کائنات کی تمام اشیاء انسان کے لئے خادم ہیں، اسی لئے جانوروں کی سواری، ان کے گوشت کو غذا، چمڑوں کو لباس اور کسی عضو انسانی کی صحت کے لئے اس کے جسم میں پیوند کاری کی اجازت دی گئی ہے مذکورہ صورتوں میں بھی چوں کہ تفریح اور بے مقصد اذیت رسانی نہیں ہے۔ بلکہ انسان کی ایک واقعہ اور لازمی ضرورت کے لئے ان سے خدمت لینا اور استفادہ کرنا اصل منشاء ہے اس لئے اس میں کوئی مضائقہ نہیں
جدید فقہی مسائل ج1 ص226 زمزم پبلشرز))